معارف اسلامیہ
2021-04-24
391 مشاہدہ
شفاعت کی اصطلاح سے ہم تمام مسلمان بخوبی آگاہ ہیں کہ جب کسی سرزدہ جرم کی سزا کے نفاذ سے پہلے کوئی وساطت کرے اور اس سزا سے بچ جائے تو کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اس شخص کی وساطت کی ہے ۔
اور اس کا مصدر شفع ہے جس کے معنیٰ جفت ہیں جو کہ وتر یعنی طاق کی ضد میں ہے گناہگار کی نجات کے لئے دوسرے شخص کی وساطت کو شفاعت کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ شفاعت کرنے والے کا مقام و عظمت اور اس کا اثر ان خوبیوں کے ساتھ جوشفاعت حاصل کرنے والے میں ہیں مل جاتی ہیں اور دونوں چیزیں ایکدوسرے کی مدد کرتے ہوئے گناہ گار کی نجات کا سبب بنتی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے لئے شفاعت کی ظاہری حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ مصطفیٰ بندے جوکہ ایک خاص مقام رکھتے ہیں گناہگاروں کے لئے وساطت کرسکتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہوئے یہ چاہیں کہ گناہ کی معافی فرمائی جائے لیکن چند شرائط کے ساتھ جن میں کچھ گناہ اور کچھ گناہگار کے ساتھ مشروط ہیں ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کے زمانے سے لے کر تا امروز اہل اسلام شفاعت کی درخواست حقیقی شافعین سے کرتے رہے ہیں اور اس قسم کی درخواست کو کسی بھی طبقے کے دانشور نے اسلامی اصولوں کے برخلاف گمان نہیں کیا یہاں تک کہ ساتویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ پیدا ہوتا ہے اور مسلمانوں میں رائج بہت سی رسوم کی مخالفت کرتا ہے اور اس کے 300 سال بعد محمد بن عبدالوھاب نجدی اٹھتا ہے اور ابن تیمیہ کے مکتب کو دوبارہ زندگی بخشتا ہے ۔