غم حضرت سید الشھداء کی فضیلت

موسوعہ حسینی

2021-06-10

940 مشاہدہ

غم حضرت امام حسین علیہ السلام کی فضیلت کے بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں کہ ان روایات میں امام حسین علیہ السّلام کی مظلومیت پر گریہ کرنے کے بارے میں جو فضیلت نقل ہوئی ہے اس میں کسی قسم کا شک نہیں اس لئے کہ اس امام مظلوم نے جو مصائب برداشت کئے ہیں اصحاب کو آنکھوں کے سامنے تڑپتے دیکھنا، بچوں کی پیاس ، بھائیوں کی شہادت ، عباس جیسے بھا ئی کے بازوؤں کا قلم ہونا ، علی اکبر جیسے حسین بیٹے کے سینے سے برچھی کا پھل نکالنا ، چھ ماہ کے شیر خوار کے گلے میں تیر کا لگتے دیکھنا یہ وہ مصائب ہیں جن کے مقابلے میں یہ ثواب کچھ بھی نہیں ہے

کیا تاریخ اسلام میں انبیاء میں سے کسی نبی نے اتنے سارے مصائب برداشت کئے ہیں ؟ حضرت یوسف علیہ السّلام جب کئی سال بعد اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام کی خدمت میں شرفیاب ہوئے تو حضرت یعقوب علیہ السّلام نے سب سے پہلے یہ کہا : اے میرے فرزند ! مجھے یہ بتا کہ جب تمہارے بھائی تمہیں میرے پاس سے لے کر گئے تھے تو انہوں نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ حضرت یوسف نے عرض کیا: بابا جان ! مجھے اس سلسلے میں معاف کریں اس لئے کہ جناب یوسف جانتے تھے کہ میرے والد گرامی اسے برداشت نہیں کر پائیں گے ۔حضرت یعقوب نے فرمایا: اچھا بیٹا اگر سارا واقعہ نہیں بتاتے تو کچھ ہی بتا دو

حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا : اے پدر جان ! جب مجھے کنویں کے پاس لے گئے تو مجھ سے کہا : اپنا لباس اتارو۔ میں نے کہا : اے برادران! کچھ خوف خدا کرو اور مجھے برہنہ مت کرو ، انہوں نے چاقونکالا اور کہنے لگے اگر پیراہن نہیں اتارو گے تو تمہیں قتل کر ڈالیں گے ، میں نے مجبورا پیراہن اتار ا توانہوں نے مجھے اُٹھا کر کنویں میں پھینک دیا ۔ جیسے ہی جناب یعقوب علیہ السّلام کی یہ مصیبت سنی تو فریاد بلند کی اور غش کھا گئے ۔

حضرت یعقوب علیہ السّلام نے حضرت یوسف پر آنے والی مصیبت کے کئی سال بعد اسے سنا اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ جناب یوسف سامنے صحیح وسالم موجود تھے لیکن پھر بھی برداشت نہ کرسکے ،مگر حضرت امام حسین علیہ السّلام دین خدا بچانے کی خاطر اپنے جوان پسر کا لاشہ اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر لائے اور پھر بھی شکر خدا کرتے رہے۔ تو وہ کٹھن مراحل اور مصیبتیں جو امام حسین علیہ السّلام نے دین خدا کی پاسداری کی خاطر برداشت کیں ان کے مقابلے میں اگر کسی کو ان پر آنسو بہانے کے بدلے میں جنّت مل جائے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اسی موضوع کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت امام حسین علیہ السلام پر غمزدہ ہونا اور اس گریہ و زاری میں شریک ہونے والے کی فضیلت میں ثواب پر چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں ۔

 

1۔ جناب ریّان بن شبیب نقل کرتے ہیں کہ میں پہلی محرم کے دن امام رضاعلیہ السّلام کی خدمت میں شرفیاب ہواتوآپ نے مجھ سے فرمایا

اے ریان بن شبیب ! کیا تم  روزے سے ہو؟ عرض کیا : نہیں ،فرمایا: یہ وہ دن ہے جس دن حضرت زکریا علیہ السّلام نے دعا مانگی کہ اے پالنے والے مجھے نیک اولاد عطا فرما ۔ توخداوند متعال نے ان کی دعا قبول کی اور ملائکہ کو حکم دیا ملائکہ نے ندادی اور حضرت یحیٰی علیہ السلام کی بشارت دی جبکہ وہ محراب میں حالت عبادت میں تھے۔

دوبارہ فرمایا : اے ابن شبیب!ماہ محرم وہ مہینہ ہے جس میں حتی کہ اہل جاہلیت اس کے احترام کی خاطر ظلم وقتال کو حرام سمجھتے تھے لیکن اس بے قدر امّت نے اس مہینے اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کی حرمت کا خیال نہ رکھا ۔اس مہینے میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ کی آل کو شہید کیا ،ان کی عورتوں کو قیدی بنایااور ان کا مال لوٹ لیا،خداوندمتعال ان کے اس گناہ کو ہر گز نہیں بخشے گا ۔

اے شبیب کے بیٹے! اگر تمہارا گریہ کرنے کا ارادہ ہو تو حسین بن علی بن ابیطالب علیہم السّلام پر گریہ کرو اس لئے کہ انہیں جس طرح ذبح کیا گیا جس طرح حیوان کو ذبح کیا جاتاہے اور ان کے ہمراہ ان کے اہل بیت علیہم السلام کے اٹھارہ ہاشمی جوانوں کو شہید کیا گیا جن کی زمین پر کوئی مثال نہ تھی ۔

بے شک ساتوں آسمان و زمین ان پر روئے اور ان کی مدد ونصرت کے لئے آسمان سے چار ہزار ملائکہ نازل ہوئے لیکن جب پہنچے تو شہید کردئیے جا چکے تھے لہذاوہ ملائکہ خاک آلودہ بالوں کے ساتھ وہیں ان کی قبر پہ رک گئے یہاں تک کہ قائم کاظہور ہو اور وہ ان کے ا نصار

اے ابن شبیب ! جب میرے داداحسین کو شہید کیا گیا تو آسمان نے سرخ خون اور خاک برسائی ۔

اے ابن شبیب! اگر تو حسین پر اس قدر آنسو بہائے کہ تیرے رخسار پر جاری ہوجائے تو خداوند متعال تمہارے سب چھوٹے بڑے گناہوں کو معاف کر دے گا چاہے وہ کم ہوں یا زیادہ ۔

اے ابن شبیب ! اگر تو یہ چاہتا ہے کہ جب خداکی بارگاہ میں پیش ہو تو گناہوں سے پاک ہو توحسین علیہ السّلام کی زیارت کر ۔

اے ابن شبیب! اگر پیغمبر صلی الله علیه وآله کے ہمراہ جنّتی مکانوں میں رہنا پسند کرتا ہے تو حسین علیہ السّلام کے قاتلوں پر لعنت بھیج ۔

اے ابن شبیب ! اگر تو یہ چاہتا ہے کہ تیرا شمار ان لوگوں کے ساتھ ہو جو حسین علیہ السّلام کے ساتھ شہید ہوئے تو جب بھی انہیں یاد کرو یہ کہو: یا لیتنی کنت معھم فأفوز فوزا عظیما. سورہ نساء :73

اگر تم یہ دوست رکھتے ہو کہ ہمارے ساتھ جنّت کے بلند درجات پر فائز ہو تو ہمارے غم میں غم مناؤ اور ہماری خوشی میں خوش ہو ،اور تم پر ہماری ولایت واجب ہے ،اس لئے کہ اگر کوئی شخص پتھر سے محبّت کرتا ہے تو خداوند متعال اسے اسی کے ساتھ محشور کرے گا۔

2۔ حضرت امام صادق علیہ السّلام نے زرارہ سے فرمایا

اے زرارہ ! بے شک آسمان چالیس دن تک حسین علیہ السّلام پرخون رویا،زمین نے چالیس دن تک سیاہی کی صورت میں ان پرگریہ کیا،سورج نے چالیس دن تک گرہن اورسرخی کی صورت میں ان پر گریہ کیا، پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر پراکندہ ہوگئے ، دریا کی موجوں میں شدّت آگئی ، اس مظلوم کی شہادت کے بعد ہماری عورتوں نے نہ تو مہندی لگائی،نہ بالوں میں تیل ،نہ آنکھوں میں سرمہ اور نہ ہی پاؤں میں پازیب ڈالی ،یہاں تک کہ عبید اللہ بن زیاد ملعون کا سر ہمارے پاس لایاگیا ۔ اس واقعہ کے بعد ہم ہمیشہ گریہ کناں ہیں۔ میرے جد امام زین العابدین علیہ السّلام کا یہ معمول تھا کہ جب بھی اس مصیبت کا تذکرہ کرتے تو گریہ کرنے لگتے،یہاں تک کہ ریش مبارک آنسوؤں سے ترہو جاتی اور اس قدر شدید گریہ کرتے کہ ہر دیکھنے والا ان پر ترس کھاتے ہوئے گریہ کرنے لگتا۔

3۔ پیغمبرصلی الله علیہ وآلہ سے ایک روایت ہے جس کا ایک حصّہ ہے کہ جب جناب جبرائیل علیہ السّلام نے رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ کو حضرت امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کی خبر دی اور پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ نے امام حسین علیہ السّلام کو بتایا تو حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا!

 اے نانا جان ! مجھے اپنے ربّ اور آپ کے حق کی قسم ،میں اس وقت تک جنّت میں داخل نہیں ہوں گا جب تک کہ وہ داخل نہ ہو جائیں۔ اور میں اپنے ربّ سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ روز قیامت ان کے قصر کو میرے قصر کے ساتھ قراردے۔

4۔ علاّمہ مجلسی رحمة اللہ علیہ نے نقل کیا ہے

جب حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ نے حضرت سیدہ فاطمہ سلام الله علیہا کو ان کے بیٹے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور ان پر آنے والے مصائب کی خبر دی تو انہوں نے شدید گریہ کیا اور عرض کیا : اے باباجان! یہ واقعہ کب پیش آئے گا ؟فرمایا : جب نہ میں ہوں گا ، نہ تم ہو گی اور نہ علی ہوں گے ۔ سیدہ  فاطمہ زہرا سلام الله علیہا نے مزید گریہ کیا اور عرض کیا : باباجان ! کون ان پر گریہ کرے گا ؟ اورکون ان کی عزاداری برپا کرے گا ؟ فرمایا : اے فاطمہ ! میری امت کی عورتیں ہمارے اہل بیت کی عورتوں پر روئیں گی اور ان کے مرد ہمارے مردوں پر روئیں گے ، اور ان کی عزاداری ہر سال ایک نسل سے دوسری نسل زندہ رکھے گی ،اور جب روزقیامت آئے گا تو تم عورتوں کی شفاعت کرو گی اور میں مردوں کی اور جس جس نے حسین پر گریہ کیا ہو گا ہم اس کا ہاتھ تھام کر اسے جنّت میں داخل کردیں گے۔ اے فاطمہ ! روز قیامت ہر آنکھ گریہ کنا ں ہوگی سوا اس آنکھ کے جس نے حسین پر گریہ کیا ہوکہ وہ اس دن جنّت کی نعمتوں کی وجہ خوشحال ہوگی۔

نئے مواضیع

اکثر شائع

الزيارة الافتراضية

شایدآپ کو بھی پسند آئے